پانچ سال میں ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرنا – اسد عمر

2301

تحریک انصاف کا سوروزہ ایجنڈہ پیش کرنے کے بعد ہمیں جو سب سے پہلی کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار روزگار پیدا کرنے، اس کی اہمیت اور حصول کے بارے میں بحث کی شروعات ہوئیں۔ لہذا ہم ملک میں ملازمتیں پیدا کرنے کے معاملے کو اقتصادی گفتگو کا مرکزی موضوع بنانے کی کوشش میں کامیاب رہے۔ میں اس مضمون میں وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا کہ ایک کروڑ ملازمتوں کا ہدف کہاں سے آتا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے اور ہم نے اس ہدف کو پورا کرنے کی کیا منصوبہ بندی کی ہے۔

سب سے پہلے ہم اس بات سے آغاز کرتے ہیں کہ پانچ سالوں میں ایک کروڑ ملازمتیں ہمارا ہدف کیوں ہیں۔ ماہرین کے فراہم کیئے گئے تخمینے کے مطابق ہر سال تقریبا بیس لاکھ اضافی نوجوان روزگار کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق پتا چلتا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑنوجوان ملازمتوں کے خواہاں ہونگے۔

اب جب کہ ہم جانتے ہیں کہ اگلے پانچ سال میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار مطلوب ہوگا تو آئیے ان ملازمتوں کے حصول میں ریاست کے کردار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق ریاست تمام شہریوں کو ملک میں دستیاب وسائل کے مطابق روزگار فراہم کرنے کی ذمے دار ہے۔ چنانچہ یہ ہماری آئینی ذمے داری ہے کہ ہم اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار مہیا کریں۔ ہمارے اس ہدف پر تنقید کرنے والے بالفاظ دیگر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بے روزگاری میں اضافے کی منصوبہ بندی کرنا چاہیے۔ کون سا مہذب ملک بے روزگاری بڑھانے کے منصوبے بناتا ہے؟

آئینی ذمے داری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نوجوان آبادی ملک کا بڑا اثاثہ اور اقتصادی اہمیت کی حامل بن سکتی ہے اگر اسے درست ہنر ، تعلیم اور میرٹ پر پیداواری مواقع فراہم کیئے جائیں۔ بصورت دیگر اگر ہم یہ اقدام نہیں کرتے تو یہ نوجوان بدترین اقتصادی اور سماجی نتائج کے ساتھ ہمارے لیئے سب سے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ بجائے اس پر کہ ہمیں ایک کروڑ روزگار کا ہدف رکھنا چاہیے یا نہیں بحث اس بات پر ہونی چاہیے کہ یہ ہدف کیسے بہترین انداز سے پورا کیا جائے۔

پرائیویٹ سیکٹر کسی بھی ملک میں ترقی اور کام کی پیداوار میں ایک بنیادی انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور حکومت اسے کاروبار کو بڑھانے اور سرمایہ کاری میں فروغ کے لیئے سہولیات فراہم کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور نجی شعبے میں روزگار پیدا کرتی ہے۔لیکن سر دست پرائیویٹ سیکٹر ٹیکسوں اور پابندیوں کے بوجھ میں ہے اور نہ ہی اسے معاشی فیصلہ سازی میں برابری کی سطح پر شمار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ حکومت کا کام کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیئے سازگار ماحول پیدا کرکے نئی سرمایہ کاری کروانا ہے۔

اب آتے ہیں اس پر کہ یہ روزگار پیدا کیسے ہونگے۔پرائیویٹ سیکٹر کو سہولت دینے اور اس میں شامل کرنے کی ہم وضاحت کرچکے ہیں۔دوسرا اہم جزو ان شعبوں کو ترجیح دینا ہے جو کام میں تیزی اور پاکستانی معیشت سے نسبتاً زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کے شعبوں میں جہاں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا سب سے زیادہ امکان ہے وہ مینوفیکچررز (SMEs)، تعمیر، سیاحت اور سماجی خدمات (تعلیم، صحت) کے شعبے ہیں۔

یہ تحقیق انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن (آئی ایل او) کی رپورٹ ورلڈ ایمپلائیمنٹ اینڈ سوشل آوٹ لْک 2015ء پر مبنی ہے۔

تحریک انصاف کی پالیسیوں کی سفارشات پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) 2018 کی رپورٹ میڈ ان پاکستان کی سفارشات سے ہم آہنگ ہیں۔

پالیسی کے کچھ اہم نکات جوسرمایہ کاری کو فروغ دینے اورمطلوبہ ملازمتوں کی تخلیق کرنے میں مددگار ہیں وہ یہ ہیں:

۔توانائی جیسے شعبوں میں ٹیکس کا تناسب کم کر کے بنیادی لاگت میں کمی کی جاسکتی ہے۔

۔اہم شعبوں میں نئی سرمایہ کاری کے لیے ٹیکسوں میں حوصلہ افزائی

۔ ترجیحی شعبوں کے مالی معاملات کے مسائل میں رسائی

۔ مالی خسارہ کو چھپانے کے لیے رقم کی واپسی میں مالی مراعات کی پریکٹس کا خاتمہ

۔ یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے ہنر کی تربیت اور تکنیکی تعلیم

۔ نجی شعبے کی وزیر اعظم کی سربراہی میں کاروباری کونسل میں نمائندگی

۔ ٹورزم اور سرمایہ کاری میں پاکستان کے مثبت تاثر سے فروغ اور نجی مہم جوئی میں اضافہ

۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے تجربے اور علم سے استفادہ کر کے سرمایہ کاری میں سہولیات کے ذریعے معیشت میں بہتری

۔ سماجی شعبے کی ترجیحی بنیادوں پر صحت اور تعلیم میں سرمایہ کاری

10۔ ماحول دوست معیشت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف ماحول کی بہتری بلکہ ملازمت اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا۔

ان اقدامات کے لیے اور ترجیحی شعبوں کے لیے تفصیلی طور پر پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکسٹائل کی پالیسی پہلے ہی جاری کی گئی ہے۔ آنے والے ہفتوں میں دوسرے شعبوں کے حوالے سے بھی پالیسی لائی جائے گی۔

بحیثیت ایک قوم آنے والی نسل کا ہم پر حق ہے کہ ہم اسے ایک باعزت زندگی دیں اور پاکستان کی خوشحالی میں ایک اہم کردار بنائیں۔ آئیے ہم اپنی آئینی ذمے داریوں پر صرف زبانی کلامی کے بجائے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جب پاکستانی قوم کسی مقصد کے حصول کا ارادہ کر لے اور متحد ہو جائے تو اس کے سامنے کوئی چیز مشکل اور نا ممکن نہیں رہتی۔ جیسے ہم نے عالمی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن کر دکھایا۔ میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مقصد کے حصول اور خوشحال پاکستان کے لیے ہماری رہنمائی کریں۔ آخر کار یہ قوم بائیس کروڑ عوام پر مشتمل ہے نہ کہ صرف چند ایک گھرانوں پر۔