Minister of Foreign Affairs Shah Mahmood Qureshi Exclusive Talk on Dunya TV Dunya Kamran Khan Kay Sath with Masood Raza (18.03.19)\n#PTI #ShahMahmoodQureshi #NAP #China #CPEC\n\nوزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے ہو چکا ہے جو آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد دسمبر 2014ء میں ہوا تھا جس پر وزیراعظم عمران خان سمیت آ صف علی زرداری، محمد نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور دیگر تمام اہم سیاسی رہنمائوں کے دستخط موجود ہیں، اس اتفاق رائے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آگے بڑھا جائے جس کے دو جزو تھے نمبر ایک عسکری جزو اور نمبر دو سیاسی جزو۔ پیر کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام’ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکری جزو کے تحت سب نے دیکھا کہ ہماری مسلح افواج نے کامیاب کارروائیاں کرتے ہوئے اپنے علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا جس کی وجہ سے آج قبائلی علاقوں میں ہمارے لوگوں کی واپسی بھی ہو رہی ہے، لوگ آباد ہو رہے ہیں، آمدورفت بھی عام ہے اور ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا بھی آغاز ہو چکا ہے اور ابھی وزیراعظم عمران خان نے باجوڑ میں ایک بہت بڑا اور کامیاب جلسہ بھی کیا ہے، دوسرا جزو جو کہ سیاسی جزو تھا گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں اس جزو میں وہ پیشرفت نہیں ہو سکی جس طرح ہونی چاہیئے تھی جو اس وقت کی حکومت کی ذمہ داری تھی، ہماری حکومت کو تو آئے ہوئے ہی ابھی سات ماہ ہوئے ہیں اور ہم ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہو رہے ہیں اور ساتھ میں اس بات کو بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قومی اتفاق رائے کے دوران طے پانے والے سیاسی جزو پر بھی توجہ دی جانی چاہیئے چنانچہ وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد ان کی اجازت سے میں نے تمام پارلیمانی رہنمائوں کی خدمت میں خطوط ارسال کر دئیے ہیں اور ان سے درخواست کی ہے کہ آج پاکستان کو ضرورت ہے کیونکہ قومی سلامتی کے مسائل درپیش ہیں جن پر کوئی جماعتی تفریق یا زیر زیر نہ ہوتی ہے اور نہ ہی ہونی چاہیئے، اس وقت پاکستان ہائی الرٹ کی حالت میں ہے اور سب نے دیکھا کہ ہمارا دشمن ہم پر ایک وار کر چکا ہے اور دوسرے کے تعاقب میں بیٹھا ہے اور کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے، ان حالات میں دنیا کے بھی ہم سے کچھ تقاضے ہیں، ڈوزئیر بھی آ چکا ہے اور کچھ دیگر چیزیں بھی ہیں جس پر ہم نے پہلے بھی مشترکہ اجلاس کے دوران تمام پارلیمانی رہنمائوں کو بریف کیا اور سب نے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مشترکہ قرارداد بھی پاس کی، اس لیے اب بھی اسی جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے بنا کسی نوک جھونک کے ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کی ضروریات کیا ہیں اور ہمیں ان سے کیسے عہدہ برآ ہونا ہے جس کے لیے سیاسی لوگوں سے مشاورت اور ان سے ان پٹ لینے کی بہت اشد ضرورت ہے جو ایک نشست سے ہی ممکن ہو سکتا ہے جس کے لیے میں نے ذاتی طور پر قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف سے درخواست کی اور انہیں خط بھی ارسال کر دیا ہے اور اسی طرح آصف علی زرداری سے بھی میری بات بھی ہوئی اور انہیں بھی میں نے خط ارسال کر دیا ہے جس پر دونوں رہنمائوں کا فوری جواب بہت مثبت تھا اور دونوں رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ملکی مفادات سیاست سے بالاتر ہیں جس پر میں ان کا دل سے شکر گزار ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ رواں ماہ 28 مارچ کے اجلاس میں وہ ضرور تشریف لائیں گے اور ہم ان کے خیالات سے مستفید ہوںگے تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا کر کے ہم آگے بڑھ سکیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آج پاکستان پر اٹھنے والی انگلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کا دفاع کیسے کرنا ہے اور اپنی ترجیحات کا تعین کیسے کرنا ہے، اگر ہم نے اس ملک کو معمول پر لانا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے، ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے تو درپیش مسائل پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں چین کے دو روزہ دورے پر بیجنگ میں ہوں جس دوران میری چینی نائب صدر اور چینی وزیر خارجہ سے ملاقات ہو گی، ہم چین کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں اور خطے کے امن و استحکام کے لیے ہم نے مل کر چلنا ہے۔
Minister of Foreign Affairs Shah Mahmood Qureshi Exclusive Talk on Dunya TV Dunya Kamran Khan Kay Sath with Masood Raza (18.03.19)
#PTI #ShahMahmoodQureshi #NAP #China #CPEC
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے ہو چکا ہے جو آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد دسمبر 2014ء میں ہوا تھا جس پر وزیراعظم عمران خان سمیت آ صف علی زرداری، محمد نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور دیگر تمام اہم سیاسی رہنمائوں کے دستخط موجود ہیں، اس اتفاق رائے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آگے بڑھا جائے جس کے دو جزو تھے نمبر ایک عسکری جزو اور نمبر دو سیاسی جزو۔ پیر کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام’ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکری جزو کے تحت سب نے دیکھا کہ ہماری مسلح افواج نے کامیاب کارروائیاں کرتے ہوئے اپنے علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا جس کی وجہ سے آج قبائلی علاقوں میں ہمارے لوگوں کی واپسی بھی ہو رہی ہے، لوگ آباد ہو رہے ہیں، آمدورفت بھی عام ہے اور ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا بھی آغاز ہو چکا ہے اور ابھی وزیراعظم عمران خان نے باجوڑ میں ایک بہت بڑا اور کامیاب جلسہ بھی کیا ہے، دوسرا جزو جو کہ سیاسی جزو تھا گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں اس جزو میں وہ پیشرفت نہیں ہو سکی جس طرح ہونی چاہیئے تھی جو اس وقت کی حکومت کی ذمہ داری تھی، ہماری حکومت کو تو آئے ہوئے ہی ابھی سات ماہ ہوئے ہیں اور ہم ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہو رہے ہیں اور ساتھ میں اس بات کو بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قومی اتفاق رائے کے دوران طے پانے والے سیاسی جزو پر بھی توجہ دی جانی چاہیئے چنانچہ وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد ان کی اجازت سے میں نے تمام پارلیمانی رہنمائوں کی خدمت میں خطوط ارسال کر دئیے ہیں اور ان سے درخواست کی ہے کہ آج پاکستان کو ضرورت ہے کیونکہ قومی سلامتی کے مسائل درپیش ہیں جن پر کوئی جماعتی تفریق یا زیر زیر نہ ہوتی ہے اور نہ ہی ہونی چاہیئے، اس وقت پاکستان ہائی الرٹ کی حالت میں ہے اور سب نے دیکھا کہ ہمارا دشمن ہم پر ایک وار کر چکا ہے اور دوسرے کے تعاقب میں بیٹھا ہے اور کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے، ان حالات میں دنیا کے بھی ہم سے کچھ تقاضے ہیں، ڈوزئیر بھی آ چکا ہے اور کچھ دیگر چیزیں بھی ہیں جس پر ہم نے پہلے بھی مشترکہ اجلاس کے دوران تمام پارلیمانی رہنمائوں کو بریف کیا اور سب نے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مشترکہ قرارداد بھی پاس کی، اس لیے اب بھی اسی جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے بنا کسی نوک جھونک کے ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کی ضروریات کیا ہیں اور ہمیں ان سے کیسے عہدہ برآ ہونا ہے جس کے لیے سیاسی لوگوں سے مشاورت اور ان سے ان پٹ لینے کی بہت اشد ضرورت ہے جو ایک نشست سے ہی ممکن ہو سکتا ہے جس کے لیے میں نے ذاتی طور پر قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف سے درخواست کی اور انہیں خط بھی ارسال کر دیا ہے اور اسی طرح آصف علی زرداری سے بھی میری بات بھی ہوئی اور انہیں بھی میں نے خط ارسال کر دیا ہے جس پر دونوں رہنمائوں کا فوری جواب بہت مثبت تھا اور دونوں رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ملکی مفادات سیاست سے بالاتر ہیں جس پر میں ان کا دل سے شکر گزار ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ رواں ماہ 28 مارچ کے اجلاس میں وہ ضرور تشریف لائیں گے اور ہم ان کے خیالات سے مستفید ہوںگے تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا کر کے ہم آگے بڑھ سکیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آج پاکستان پر اٹھنے والی انگلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کا دفاع کیسے کرنا ہے اور اپنی ترجیحات کا تعین کیسے کرنا ہے، اگر ہم نے اس ملک کو معمول پر لانا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے، ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے تو درپیش مسائل پر توجہ دینا ناگزیر ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں چین کے دو روزہ دورے پر بیجنگ میں ہوں جس دوران میری چینی نائب صدر اور چینی وزیر خارجہ سے ملاقات ہو گی، ہم چین کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں اور خطے کے امن و استحکام کے لیے ہم نے مل کر چلنا ہے۔